Ticker

3/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ تحریر۔۔۔فاروق شہزاد ملکانی

کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟
تحریر۔۔۔فاروق شہزاد ملکانی

آج 14 اگست 2016 کی صبح جب میرے پانچ سالہ بیٹے محمد صفیان نے مجھے کہا کہ ابو آج جشن آزادی ہے مجھے جھنڈیاں اوربیج چاہیءں تو مجھے وہ جھنڈیاں اور بیج یاد آگئے جو میں اس موقع کیلئے کچھ دن قبل ہی ملتان سے لایا تھا۔تو میں نے اس سے کہا کہ بیٹا یہ سب کچھ آپ کو مل جائے گا بس ذرا ناشتہ کرلو۔
اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں یہ سوال بھی سر اٹھانے لگا کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں یا ہمیں صرف یا دلانے کیلئے یہ دن منایا جاتا ہے کہ ہم آزاد ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ سوالات بھی میرے ذہن میں گردش کرنے لگے کہ کہیں آزادی کے نام پر امیر اشرافیہ کو غریب عوام پر مسلط تو نہیں کیا گیا؟آزاد وطن کیلئے جب بھی قربانی کی بات کی جاتی ہے تو ہمیشہ غریب عوام سے ہی کیوں قربانی مانگی جاتی ہے؟
کیا امیراشرافیہ اتنی کنگال ہے کہ وہ وطن کیلئے تھوڑی سی قربانی بھی نہیں دے سکتی؟
کیا دوسرے ممالک خاص طور پر امریکا ہماری سرزمین پر ڈرون حملے کرکے ہماری آزادی اور خودمختیاری کا مذاق نہیں اڑا رہے؟
اور ہم ٹیکنالوجی اور صلاحیت رکھنے کے باوجود ان ڈرون طیاروں کو مار گرانے کی ہمت نہیں کرتے کہ ہم خود اپنے آپ کو آزاد وخودمختیار ملک ماننے کو تیار ہی نہیں؟
ہماری لولی لنگڑی جمہوریت صرف سرمایہ دارانہ نظام کے زیرتسلط ہی کیوں ہے؟ کیوں ایک ایماندار،محب وطن،دیہاڑی دار مزدور انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا؟
کیوں ایک بیوہ ماں لاہور کی عدالت میں کھڑے ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہوتی ہے کہ میں نے اپنے اکلوتے بیٹے کے قاتلوں کو معاف نہیں کیا مگر میں کیس کی پیروی بھی نہیں کرسکتی کیوں کہ میرے گھر میں جوان بیٹیاں ہیں،میں اپنے بیٹے کو توکھو چکی ہوں مگر میں اپنی بیٹیوں کی عصمت تارتار ہوتے نہیں دیکھ سکتی،کیا ہم نے آزاد ملک اسی دن کیلئے حاصل کیا تھا؟
کیا ہمارے آزاد ملک کو قلیل سرمایہ دار اشرافیہ نے یرغمال نہیں بنا لیا؟
کیا ہم مسلمان ہونے کے باوجود بھوک کے ڈر سے فیملی پلاننگ کے نام پر اپنی نسلوں کواس دنیا میںآنے سے نہیں روک رہے؟
اور اس سے بھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ آئے روز والدین اپنے معصوم بچوں کو مار کر خودکشیاں کررہے ہیں کیا اس میں بھی مملکت کا کوئی قصور نہیں کہ وہ عوام سے ٹیکس درٹیکس تو وصول کررہی ہے مگر دووقت کی روٹی مہیا کرنے سے انکاری ہے؟
آئے روز غریب عوام کے سینکڑوں بچے اغوا اور غائب کئے جارہے ہیں انہیں تحفظ فراہم کرنا ریاست کا کام نہیں؟
کہا جاتا ہے کہ دوسرے ممالک میں اتنے لاکھ بچے فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں،میں دنیا کے ان ٹھیکیداروں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کو اسلام کے نام بنے اس وطن عزیز میں فٹ پاتھ پر سوتے بچے نظر نہیں آتے؟مجھے وہ ایک سال سے سات سال کی عمر کے فٹ پاتھ پرسوئے وہ بچے رہ رہ کر الجھن کا شکار کردیتے ہیں جو اپنی ماں کے ساتھ ایم ڈی اے چوک ملتان اور پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے سامنے ملے تھے۔خاک ہی جن کا اوڑھنا بچھونا تھی اور کچرے کے ڈھیر سے روزی روٹی کی تلاش ان کا سب سے بڑا کام تھا۔
کیا حکومتوں کا کام صرف سستی شہرت کیلئے اربوں روپے سے میٹرو بسیں بنانا ہے؟ غریب عوام کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنا نہیں؟عوام کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنا نہیں؟عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف فراہم کرنا نہیں؟
کب تک عام آدمی کو جذباتی باتوں اور جذباتی نعروں سے بہلایا جاتا رہے گا؟
کیا پاکستان اسی لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں لاقانونیت اور کرپشن کا راج ہو، ہر جائز کام کیلئے بھی دام درکار ہوں؟
آخر میں بس اتنا ہی کہ آزادی کے کھوکھلے نعرے پیٹنے کی بجائے پاکستان کو ایک مکمل ملک بنایا جائے،نعروں اور جذباتی نعروں سے عوام کو بہلانے کی بجائے عملی کام کئے جائیں۔
جس دیس کے کوچے کوچے میں افلاس آوارہ پھرتا ہو
جودھرتی بھوک اگلتی ہو،جہاں دکھ فلک سے گرتا ہو
جہاں بھوکے ننگے بچے بھی آہوں پہ پالے جاتے ہوں
جہاں سچائی کے مجرم بھی زنداں میں ڈالے جاتے ہوں
جہاں مظلوموں کے خون سے محل اپنے دھوئے جاتے ہوں
اس دیس کی مٹی برسوں سے یہ دکھ جگر پہ سہتی ہے
اور اپنے دیس کے لوگوں کو جشن آزادی مبارک کہتی ہے
جشن آزادی مبارک

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے