Ticker

3/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

فرانسیسی لڑکی نے پاکستان کو کیسا پایا | جوہانا مچل

مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی دفعہ ہندوستان سے بذریعہ واہگہ پاکستان میں داخل ہوئی تھی، تو نوری کا ایک گانا سنتے ہوئے میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔

خوف سے نہیں، بلکہ اس تجربے کا سوچ کر ہی جس کے لیے مجھے ایک طویل عرصے سے انتظار تھا۔

جب مجھے پہلی دفعہ میری پاکستانی دوستوں نے اس ملک کے بارے میں بتایا تھا، تب میں 18 سال کی تھی اور لندن میں رہتی تھی۔ ان کی کہانیوں نے فوراً ہی اس ملک میں میری دلچسپی پیدا کر دی۔ آخر کار ایک طویل عرصے کے بعد مجھے پاکستان آنے کا موقع ملا۔ اس سفر کی منصوبہ بندی کرنے میں مجھے دو ماہ لگے، اور کئی راتوں تک میں نے تحقیق کی کہ مجھے کہاں جانا چاہیے اور کیا کرنا چاہیے۔

جب میں سرحدی چوکی پر پہنچی تو پاکستان کے سرحدی حکام نے حیرانگی کی ساتھ میرا استقبال کیا، اور مجھ سے طرح طرح کے سوالات پوچھے، کہ آیا میں اکیلی سفر کر رہی ہوں، آیا یہ پاکستان کا میرا پہلا سفر ہے، میں پاکستان کیوں آئی ہوں، وغیرہ۔ میں نے ان سب کے جوابات خوشدلی سے اور حد درجہ تفصیل سے دیے۔

"میں پاکستان اس لیے دیکھنا چاہتی ہوں تاکہ یہ جان سکوں کہ یہ واقعی میڈیا میں دکھائے جانے والے پاکستان جیسا ہی ہے یا نہیں۔ سچ کہوں تو مجھے ٹی وی پر دکھائی جانے والی باتوں پر یقین نہیں ہے۔"

جب میں نے یہ کہا تو چاروں اطراف مسکراہٹیں بکھر گئیں۔


 اتنے خوش چہروں کے ساتھ تو اگر مجھے سرحد پر ہی رہنا پڑتا تو میں اس میں بھی خوش ہوتی۔ اسٹاف کا رویہ نہایت دوستانہ تھا۔ مگر کیوں کہ میرے دوست مجھے لینے کے لیے موجود تھے اس لیے میں زیادہ دیر نہیں رکی۔ چند مزید سوالات، مسکراہٹوں اور کئی 'شکریوں' کے ساتھ میں بالآخر پاکستان میں داخل ہو گئی۔ مجھے اپنی چٹکی لے کر خود کو یقین دلانا پڑا کہ میں واقعی پاکستانی سرزمین پر موجود ہوں۔

اپنے دوستوں کا انتظار کرتے ہوئے میں چند بوڑھے اشخاص کے ساتھ ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔ انہوں نے مجھے دیکھا، مسکرائے، اور پوچھا کہ میں کہاں سے آئی ہوں۔ میں نے اپنا تعارف اردو میں کروانے کا فیصلہ کیا، اور پھر خود سے سیکھے ہوئے چند الفاظ بولنے کی کوشش کی۔ مجھے دشواری ضرور ہوئی مگر انہوں نے اس کی بہت تعریف کی۔

انہوں نے مجھ سے کہا، "مس، آپ پریشان مت ہوں۔ ویسے تو پاکستان میں خواتین اکیلے بہت کم سفر کرتی ہیں، مگر لوگ آپ کا بالکل اپنے گھرانے کی خواتین کی طرح ہی خیال رکھیں گے۔ ہم آپ کو رات کے کھانے کی دعوت دیتے ہیں۔"

اب میں جان چکی تھی کہ میرا یہ ہفتہ ناقابلِ فراموش اور حسین تجربات سے بھرپور ہوگا۔

میں نے ان لوگوں کے ساتھ 'چائے' کا پہلا کپ پاکستان میں پیا، مجھے اس چیز کی بھی بڑے عرصے سے خواہش تھی۔ تھوڑی دیر میں میرے پیارے دوست فیضان، شاہ، اور لِزی مجھے اپنی چمکدار نئی گاڑی میں لینے کے لیے آ پہنچے۔

میری ان سے انٹرنیٹ کے ذریعے ملاقات ہوئی تھی اور ہم پہلی دفعہ ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ میں ان کی مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوئی کیوں کہ وہ مجھے لینے کے لیے اتنا دور آئے تھے۔ میں نے انہیں 'اسلام و علیکم' کہا، جن کے ساتھ چائے پی ان نفیس افراد کو خدا حافظ کہا، اور پھر میں پاکستان دیکھنے کے لیے نکل پڑی۔

گاڑی میں کوک اسٹوڈیو کے گانوں نے پاکستان سے میرا گہرائی سے تعارف کروایا۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا اور لاہور کے خوبصورت کینالوں اور سر سبز درختوں کے نظاروں کا مزہ لینے لگی۔
 میرے دوست موٹرسائیکلوں کے بہت شوقین ہیں اور قراقرم بائیکرز نامی گروپ کے بانی ہیں، جو پاکستان کے مختلف علاقوں تک موٹرسائیکل پر ٹورز کا انتظام کرتے ہیں۔ جب انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اندرونِ لاہور کی سیر بائیک پر کرنا چاہوں گی تو میں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ہاں کر دی۔ اسی شام ہم گنجان آباد مگر حیران کن اندرونِ لاہور کی گلیوں میں گھوم رہے تھے۔

اپنے چہرے پر ٹھنڈی ہوا محسوس کر کے اور آس پاس ایک بالکل مختلف منظر دیکھ کر مجھے خوشی اور آزادی کا ایک بہت گہرا احساس ہوا۔

سب سے پہلے ہم وزیر خان مسجد رکے، جو نہایت خوبصورت مسجد ہے۔ میں پہلی دفعہ کسی مسجد میں داخل ہوئی تھی۔ فرانس میں جہاں میں رہتی ہوں، وہاں مساجد نہیں ہیں۔ میرے ملک میں اسلام کا عمومی تاثر منفی ہے، مگر جب میں وزیر خان مسجد میں داخل ہوئی تو مجھے کافی سکون محسوس ہوا۔ میں یوں تو ہمیشہ بے چینی کا شکار رہتی ہوں اور آسانی سے تناؤ میں آ جاتی ہوں، مگر وہ تمام احساسات اس وقت غائب ہوگئے۔

میں جان گئی کہ مسلمان مساجد کیوں جاتے ہیں۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں داخل ہونے پر آپ اپنی تمام پریشانیاں بھول جاتے ہیں۔ وزیر خان مسجد لاہور میں میری پسندیدہ جگہ رہے گی۔
 ہم نے پاک کیفے پر رک کر اپنے دن کا اختتام کیا، جہاں (ظاہر سی بات ہے) کہ ہم نے چائے پی اور ڈھیر ساری باتیں کیں۔ قریب موجود ایک ٹیبل پر بیٹھی ایک نوجوان خاتون مڑیں اور مجھ سے پوچھا کہ کیا میں فرانسیسی ہوں (کیا میرا لہجہ اتنا واضح ہے)؟ میں نے انہیں اردو میں جواب دیا، جس سے وہ مزید حیرانی کا شکار ہوگئیں اور نا ختم ہونے والے سوالات کا ایک اور دور شروع ہو گیا۔

اگلے چند دنوں میں مجھے اپنے ایک اور دوست احمد کے ساتھ لاہور گھومنے کا موقع ملا، جس سے میں انٹرنیٹ پر ملی تھی۔ میں جب پاکستان کے بارے میں تحقیق کر رہی تھی، تو میں نے سوال و جواب کی ویب سائٹ 'قورا' پر پوچھا تھا، "کیا ایک چوبیس سالہ لڑکی کے اکیلے سفر کرنے کے لیے پاکستان محفوظ ہے؟" احمد جواب دینے والا پہلا شخص تھا، اور پھر میرے لاہور آنے تک ہم نے روز باتیں کیں۔

میں نے چندی گڑھ (انڈیا) سے واہگہ تک ٹیکسی لی۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا مگر احمد اس دوران میرے ساتھ رابطے میں رہا۔ وہ بہترین پاکستانیوں میں سے ایک ہے۔ میں اس کے گھرانے سے بھی ملی اور وہ تمام بہت پیارے لوگ ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میں ایک دن یورپ میں اس کی میزبانی کروں گی۔

وہ مجھے اپنی یونیورسٹی لمز دکھانے لے گیا۔ عمارت کی سرخ اینٹوں نے مجھے برطانیہ کی یاد دلائی۔ کیمپس میری برطانوی یونیورسٹی کارڈف سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ میں نے لمز میں چند غیر ملکی طلباء کو بھی دیکھا اور خود کو وہاں زیرِ تعلیم تصور کیا۔

پھر ہم فوڈ اسٹریٹ گئے، اور بادشاہی مسجد کے سامنے موجود ایک ریسٹورینٹ پر کھانا کھایا۔ میں نے پراٹھہ، دال اور مٹن کھایا جو نہایت نرم اور بہترین انداز میں پکا ہوا تھا۔ میں نے نیوٹیلا نان بھی کھایا جو نہایت لذیذ تھا۔ امریکا میں پاکستانی کھانے اچھے ہوتے ہیں مگر ان میں وہ بات نہیں ہوتی جو لاہور کے کھانوں میں تھی۔ مجھے لگا تھا کہ یہ کافی مصالحے دار ہوں گے مگر شکر ہے کہ یہ قابلِ برداشت تھے۔

 جب ہم کھانا کھا رہے تھے اور باتوں میں مصروف تھے، تو ریسٹورینٹ میں موجود ایک گلوکار نے احمد سے پسندیدہ گانے کے بارے میں پوچھا۔ احمد کو معلوم تھا کہ مجھے پاکستان کا جل بینڈ بہت پسند ہے، چنانچہ اس نے گلوکار سے وہی گانے کے لیے کہا۔ یہ بھی ایک ناقابلِ فراموش لمحہ تھا۔

اب باغات کے شہر کو خدا حافظ کہنے کا وقت تھا۔ میرا اگلا اسٹاپ اسلام آباد تھا۔ میرا یونیورسٹی کا ایک دوست 'سیم' مجھے احمد کے گھر سے اپنی گاڑی میں لینے کے لیے آیا تھا۔ میں اسلام آباد تک جانے کے لیے بے تاب تھی کیوں کہ مجھے میری روم میٹ نے بتایا تھا کہ راستہ نہایت خوبصورت ہے۔

جب ہم دار الحکومت میں داخل ہو رہے تھے تو سورج غروب ہو رہا تھا اور سنہری دھوپ صاف ستھرے پہاڑوں پر پڑ رہی تھی۔ زمین اس وقت تک بالکل ہموار تھی جب تک کہ ہم اسلام آباد سے تھوڑا پہلے پہاڑی علاقے تک نہیں پہنچ گئے۔ آہستگی سے اپنی منزل تک پہنچتے ہوئے شہر کی روشنیاں دیکھنا ایک بہت خوشگوار نظارہ تھا۔

گاڑی میں بج رہے صوفی گانے نہایت مسحور کن تھے۔ کچھ سال قبل میرے دوستوں نے جب مجھے صوفی ازم سے متعارف کروایا تھا تو اس میں میری دلچسپی بڑھ گئی تھی۔ میں نے روزانہ صوفی موسیقی، بالخصوص راحت فتح علی خان کو سننا شروع کر دیا۔ جب میں پاکستان آ رہی تھی، تو میں نے مولانا رومی سے متعلق چند کتب بھی خریدیں۔ صوفی ازم اپنی شاعری اور موسیقی کے ذریعے میرا تعلق اس ملک سے جوڑ دیتا ہے۔

اگلے دن میں نے اپنے دوست کے لیے ایک چھوٹے سے سرپرائز کا انتظام کیا اور اسے مارگلہ ٹاؤن اور آرچرڈ اسکیم کے پاس شہر سے باہر اورک ہارس بیک رائیڈنگ کلب میں گھڑ سواری کے لیے لے گئی۔ مجھے اس کلب کا انٹرنیٹ کے ذریعے پتہ چلا تھا۔
 دھوپ نکلی ہوئی تھی لیکن موسم ٹھنڈا تھا، اور دور کہیں سے اذان کی آواز آ رہی تھی، جس سے کافی روح پرور احساس ہو رہا تھا۔ ہم کلب کی مالک اورک کے دوست بن گئے جو ایک کینیڈین ہیں اور کئی سالوں سے اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ ہم ان کے شوہر سے بھی ملے۔

میں مزید چند دن اسلام آباد میں رکی جس کے دوران میں نے مارگلہ کی پہاڑیوں کے پاس مزید کھانے چکھے اور فیصل مسجد کے پاس چہل قدمی کی، اور بالآخر انگلینڈ روانہ ہوگئی جہاں میں رہتی ہوں۔

میری خواہش ہے کہ ہر کسی کو پاکستان گھومنے کا موقع ملے۔ جب میں پاکستان کے بارے میں تحقیق کر رہی تھی تو ہر جگہ بم دھماکوں، اغوا، اور ملک کے غیر ملکیوں، خاص طور پر اکیلی خواتین کے لیے غیر محفوظ ہونے کی خبریں بکھری پڑی تھیں۔ مگر مجھے معلوم تھا کہ تصویر کا حقیقی چہرہ یہ نہیں تھا۔
 پاکستان میں گزارے گئے وقت کے دوران میں نے حیران کن مہمان نوازی، خوبصورت مناظر، کھانوں اور موسیقی کا لطف لیا اور گرم جوش لوگوں سے ملاقات کی۔ یہاں ہر کوئی مہربان اور محبت کرنے والا تھا، اور مجھے اپنائیت کا احساس دلانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ اور ہاں میں نے بہت ممالک کا سفر کیا ہے مگر میں نے ایسا ایثار اور محبت دنیا میں کہیں بھی نہیں دیکھی۔

میں آپ سے کہوں گی کہ آپ پاکستان ضرور جائیں۔ میں گارنٹی دیتی ہوں کہ آپ کا تجربہ مایوس کن نہیں ہوگا۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے