Ticker

3/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

اگلے انتخابات میں تختِ لاہور کا فیصلہ جنوبی پنجاب کرے گا!

اگلے انتخابات میں تختِ لاہور کا فیصلہ جنوبی پنجاب کرے گا!
ان کہی۔ تحریر: نسیم شاہد
بلاول بھٹو زرداری چند گھنٹے ملتان میں گزار کر واپس چلے گئے، اُن کے دورے کو یوسف رضا گیلانی خاندان نے اپنے "قبضے" میں رکھا۔ اُن کی افطار پارٹی میں جسے چاہا بلایا، جسے چاہا نظر انداز کر دیا۔ بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کی مجبوری ہے کہ وہ سخت سیکیورٹی حصار کے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتے، سو یہاں بھی آنے والوں کے لئے کارڈ جاری کئے گئے اور سیاسی مجمعے کو خاندانی دعوت میں تبدیل کر کے رکھ دیا گیا۔ اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری کو دوسری جماعتوں کے دو چار منحرفین کا "نذرانہ" بھی پیش کیا گیا، جس پر اُن کے سیاسی مخالفین نے الزام لگایا کہ وہ انہی لوگوں کو پہلے بھی پیش کر چکے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری کو چھوٹی سی عمر میں ماموں بنا دیا گیا ہے۔۔۔مجھے حیرت ہے کہ سیاسی جماعتیں جنوبی پنجاب کو اتنا آسان خطہ کیوں سمجھ رہی ہیں کہ جہاں کے چھ کروڑ عوام کو کسی وقت بھی بے وقوف بنایا جا سکتا ہے، حالانکہ صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ گزرے ہوئے برسوں میں یہاں کا سیاسی شعور بہت بیدار ہوا ہے۔ پسماندگی اور محرومی کا جو تذکرہ پہلے صرف تقریروں میں کیا جاتا تھا، اب لوگ اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ یہ اُن کی اسی نظرِ بینا کا کمال ہے کہ اب وہ آسانی سے دام میں آنے والے نہیں۔ مُلک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف آج بھی اپنی سیاست میں اس علاقے کو دوسرے درجے کا مقام دیئے ہوئے ہیں، حالانکہ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ اس بار تختِ لاہور کی ملکیت کا فیصلہ جنوبی پنجاب کے عوام کریں گے۔ یہاں جمشید دستی جیسے رہنماؤں کی مقبولیت میں بے تحاشہ اضافہ اس لئے ہوا ہے کہ انہوں نے بدلی ہوئی سیاست کی بنیاد رکھی ہے۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ ایک ایسے علاقے میں جہاں سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کی سیاست کا طوطی بولتا تھا، وہاں ایک مزدور طبقے کا آدمی نہ صرف ایم این اے بنا، بلکہ جب نااہل قرار دیا گیا تو دوبارہ بھی لوگوں نے اُسے ہی اپنا نمائندہ چنا۔
جمشید دستی نے عوامی راج پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی تو اُس کا تمسخر اڑایا گیا،مگر آج جب وہ گرفتار ہوا ہے تو یہی جماعت پورے جنوبی پنجاب میں احتجاج کر رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کی جڑیں پھیل رہی ہیں۔ اس مثال کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اب جنوبی پنجاب قوم پرست سرائیکی جماعتوں اور الگ صوبے کے لئے جدوجہد کرنے والی تنظیموں کی وجہ سے اپنے حقوق کے شعور کی اعلیٰ منازل کو چھو رہا ہے، لیکن بڑی سیاسی جماعتیں اس حقیقت سے نابلد نظر آتی ہیں۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں کے عوام اب اقتدار میں حصہ نہیں،بلکہ اپنے حصے کا اقتدار مانگتے ہیں۔ پچھلے ستر برس کی تاریخ نے یہاں کے لوگوں کو یہ سبق باور کرا دیا ہے کہ اس حصے کی نمائندگی کے نام پر جو لوگ ایوانِ اقتدار میں جاتے ہیں، وہ صرف اپنا پیٹ بھرتے ہیں، یہاں کے بھوکے ننگے عوام کے لئے ان کا حق نہیں مانگتے۔ کون ساحکومتی عہدہ ہے جو اس خطے کو نہیں ملا مگر صرف شوشا کے لئے کسی میں اتنی جرأت نہ ہوئی کہ وہ یہاں کے حقوق کی بات کرتا، البتہ خیرات میں ملنے والے عہدے پر کروفر کا اظہار ضرور کرتا رہا۔ آج بھی پنجاب کی گورنری اس علاقے کو ملی ہوئی ہے، مگر بے بسی کا عالم ملاحظہ کیجئے کہ گورنر صاحب کو صرف اس بات کی فکر ہے کہ کسی طرح ان کے بیٹے کو قومی حلقہ 149 سے مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ مل جائے۔ اس ایک آرزو کے لئے وہ اس علاقے کے کروڑوں عوام کی آرزوؤں کا گلا گھونٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے چند ماہ پہلے بڑے فخر سے یہ اعلان کیا تھا کہ جنوبی پنجاب میں ایک الگ سیکرٹریٹ بنایا جا رہا ہے، جہاں ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور تمام محکموں کے سیکرٹریز بیٹھا کریں گے اور جنوبی پنجاب کے انتظامی امور اسی سیکرٹریٹ میں نمٹائے جائیں گے۔ نجانے کس ترنگ میں گورنر صاحب یہ اعلان کر گئے، مگر جب انہیں لاہور کی اشرافیہ سے واسطہ پڑا تو انہیں شاید یہ فکر دامن گیر ہو گئی کہ کہیں اس مطالبے کی وجہ سے ان کی گورنری کو ہی خطرات لاحق نہ ہو جائیں، سو انہوں نے اپنے اس اعلان کا دوبارہ اعادہ کرنا تودور کی بات، اس بارے میں سوال سننا بھی شجر ممنوعہ قرار دیدیا۔
پنجاب کا حالیہ بجٹ آیا تو لوگ بڑی شدت سے اس میں الگ سیکرٹریٹ کے لئے مختص فنڈز کو ڈھونڈتے رہے، لیکن جب مدعی ہی سو جائے تو اسے خیرات کہاں مل سکتی ہے۔ پہلے کی طرح اس سال کے صوبائی بجٹ میں بھی اپر پنجاب اور جنوبی پنجاب کے لئے مختص کئے گئے بجٹ میں کوئی موازنہ نہیں، حالانکہ دونوں کی آبادی ایک جتنی ہے۔ صرف لاہور کا بجٹ ہی پورے جنوبی پنجاب سے کئی گنا زیادہ ہے۔ خیال تو یہی تھا کہ پنجاب حکومت اپنے اس آخری بجٹ میں جنوبی پنجاب کو اس کی آبادی کے مطابق بجٹ میں سے حصہ دے گی، تاکہ اگلے سال جب انتخابات ہوں تو مسلم لیگ (ن) فخر کے ساتھ لوگوں کے پاس جا سکے، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وہی روایتی منصوبے اور وہی روایتی بجٹ، جسے اس علاقے کے لوگوں نے مسترد کر دیا۔ صحت، پینے کا صاف پانی اور تعلیم تین ایسے شعبے ہیں، جن میں جنوبی پنجاب پسماندگی کی آخری حدوں کو چھوڑ رہا ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے یہ خبر گرم تھی کہ پنجاب حکومت علاقے کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر نشتر ہسپتال کے معیار کا ایک دوسرا ہسپتال بنانے کا فیصلہ کر چکی ہے، اس کے لئے زمین کا انتخاب بھی جاری تھا، لیکن بجٹ آیا تو اس میں اس منصوبے کا ذکر تک نہیں تھا۔
وزیر اعلیٰ شہباز شریف پنجاب بجٹ کے حوالے سے اپنے سوشل میڈیا پیج پر لاکھ افسانے بناتے رہیں، زمینی حقائق یہ ہیں کہ جنوبی پنجاب کو شعبدہ بازی کے ذریعے مطمئن کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جن پانچ نئی یونیورسٹیوں کے قیام کا ذکر کیا گیا ہے، وہ پہلے سے موجود کالجوں کو اپ گریڈ کر کے بنائی گئی ہیں۔ گویا ایک سہولت دی گئی ہے تو ایک سہولت واپس لے لی گئی ہے۔ خاص طور پر ملتان کی خواتین یونیورسٹی کو ملتان کے عوام علاقے کے غریب عوام کی بچیوں پر بہت بڑا ظلم قرار دیتے ہیں، کیونکہ اس کی وجہ سے ملتان کا سب سے قدیمی گرلز کالج کچہری روڈ، جہاں 14 ہزار طالبات پڑھتی تھیں، بند کر دیا گیا۔ موجود گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے بھی بار ہا وعدہ کرنے کے باوجود گورنمنٹ کالج برائے خواتین کچہری روڈ ملتان کو بحال کرانے اور خواتین یونیورسٹی کو متی دل روڈ پرواقع اس کے اپنے کیمپس میں منتقل کرنے کے ضمن میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ یہی کچھ بہاولپور، ڈیرہ غازی خان اور ملتان میں انجینئرنگ یونیورسٹی کے قیام میں روا رکھا گیا۔کیا ایک سہولت چھین کر دوسری سہولت دینے سے جنوبی پنجاب کے لوگوں کا احساس محرومی ختم ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب کوئی کوتاہ نظر ہی اثبات میں دے گا۔
مُلک کی تینوں سیاسی جماعتیں وہی پرانی حکمتِ عملی اختیار کئے ہوئے ہیں کہ انتخابات کے دِنوں میں اس علاقے کو الگ صوبہ بنانے کا نعرہ لگا کر میدان میں اتریں گی اور لوگ اُن کے ساتھ چل پڑیں گے۔ پیپلز پارٹی تو اس وقت پوری طرح بے نقاب ہو گئی تھی، جب سینیٹ میں قومی زبانوں کی قرارداد پیش کی گئی اور اُس میں سرائیکی کو شامل نہیں کیا گیا، حالانکہ پیپلزپارٹی اُس کی محرک تھی۔ جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی کی اسی دوعملی کو سرائیکی صوبے کی حامی قوم پرست تنظیموں نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور خود یوسف رضا گیلانی کو کئی مواقع پر جان چھڑانا مشکل ہو گیا۔ آصف علی زرداری بار بار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اقتدار حاصل کر لیں گے۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ اس بار تختِ لاہور بلکہ تختِ پاکستان کا فیصلہ جنوبی پنجاب کرے گا۔ جو سیاسی جماعت اس خطے کے عوام کو مطمئن کرنے میں کامیاب رہی(جو کہ خاصا مشکل کام ہے) وہ پنجاب میں اکثریت حاصل کر لے گی، اس کے لئے صرف الگ صوبے کا نعرہ کارگر ثابت نہیں ہو گا، کیونکہ اس نعرے میں اب کشش نہیں رہی کہ سب جماعتیں اسے صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے لگاتی ہیں۔ اب اصل امتحان یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کن لوگوں کو انتخابی میدان میں اتارتی ہیں، اگر وہی چہرے، وہی لوگ جو اس خطے کی محرومی کا اصل سبب رہے ہیں، نئے لبادے اوڑھ کر سامنے آئے تو شاید وہ اپنے ساتھ اپنی جماعت کو بھی لے ڈوبیں۔


بشکریہ ڈیلی پاکستان

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے