Ticker

3/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

جمشید دستی ۔۔۔۔جُرم۔۔۔سرائیکی تحریر: ابوذرمنجوٹھہ

جمشید دستی ۔۔۔۔جُرم۔۔۔سرائیکی
تحریر: ابوذرمنجوٹھہ
حمید اُلفت ملغانی صاحب سے ایک دفعہ لیہ ڈگری کالج ملاقات ہوئی انہوں نے مجھے ایک شعر لکھ کر دیا تھا
تھل دی ریت سجاگ تھئی تاں
کُر تے بیڑی ٹردی ویسی
جمشید دستی کے ساتھ سیاسی حوالے سے لاکھ اختلاف ہیں ۔لوگ کہتے ہیں کہ ڈرامے بازیاں کرتا ہے میرا ہمیشہ جواب یہ ہوتا ہے کہ باقی لیڈروں کو بھی ایسی ہی ڈارمے بازیاں کرنا چاہیے ۔اس نے فری بس سروس شروع کردی ،حجام کی دوکان ، جوتے پالش، گندم کے دنوں میں تھریشر لگا دی ،سرداروں وڈیروں کو عوام کے پاس لا کر کھڑا کر دیا ۔قبر میں میت اُتارنے تک کے لیے سرداروں کو مجبور کر دیا۔چلو مان لیتے ہیں کہ ساری ڈرامے بازیاں ہیں ۔بجٹ تقریر میں سیٹیاں مار مار کر حکمران جماعت کو اکیلے ذلیل و خوار رکھے رہا۔یہ اُس کا جُرم نہیں ہے اُس کا جُرم ہے کہ اُس کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے 6کروڑ آبادی کا وہ علاقہ جہاں کے لوگوں کو تخت لاہور شاید انسان ہی نہیں سمجھتے ۔جہاں پر اتنے بڑے علاقے کے لیے ایک بڑا ہسپتال ، دو یونیورسٹی اور اب کچھ مزید سب کیمپس بھی بن گئے ہیں ۔جہاں آج بھی ایسے علاقے ہیں جہاں انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں ۔جہاں آج بھی مینڈکوں سے بھرے تالابوں سے پانی بھر کر پیا جاتا ہے ۔ جہاں 30لوگ مر جاتے ہیں مٹھائی میں زہر ہونے کہ وجہ سے پر اُن کے لیے کوئی ایسا ہسپتا ل نہیں ہے جہاں فورا ان کا علاج ہو سکتا ۔ جہاں کے 27سال پہلے وعدہ کیا جاتا ہے ایک پُل کا اور 27سال بعد تختی لگائی جاتی ہے ۔ جہاں آج بھی لوگ روٹی کپڑا مکان جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں جہاں ایک سڑک جس کو ایم ایم روڈ کہا جاتا ہے جس کا مقامی لوگوں نے نام بدل کر قاتل روڈ کر دیا ہے وہ دو رویہ نہیں ہو سکتی ۔جہاں آج بھی بھوک کی وجہ سے لوگ بچوں کو کسی مدرسہ میں ڈال آتے ہیں کہ کچھ کھانا تو ملے گا۔ جہاں آج بھی ایم اے پاس مزدوریاں کریں ۔ ہمیں کبھی میڑو بس ، کبھی تونسہ پُل کے نام پر لولی پاپ دے دیا جاتا ہے ۔ اس پر وسیب کے ایک شاعر نے کیا خوب شعر کہا ہے
تیڈی میڑو بس کو بھاہ لیسوں
ساڈے بُکھے بال غذا منگدن
جمشید دستی کا جُرم اتنا تھا کہ اُس نے وسیب کے کسانوں کے لیے جبر کے خلاف ساتھ دیا اور پانی کسانوں کو فراہم کیا۔ اس کو محض اس کام کی وجہ سے گرفتا ر کر لیا جاتاہے ۔جنہوں نے ماڈل ٹاؤن میں 17بندے مار دیے وہ ملک پر راج کر رہے ہیں ۔ جنہوں نے دھمکیاں دیں کہ زمین تنگ کر دی جائے گی وہ آج بھی آزاد پھر رہے ہیں ۔جنہوں نے سپریم کورٹ پر حملے کیے وہ اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے ہوں ۔ جنہوں نے کرپشن کی انتہا کی ہو ان کو کون پوچھ سکتا ہے ۔ جمشید دستی جس نے کسانوں کا ساتھ دیا اُس کو سلاخوں کے پیچھے قید کر دیا گیا یہ انصاف ہے ۔ اُس کو جُرم اتنا ہے کہ وہ اس وسیب کا بیٹا ہے اور اس ظلم کے خلاف پورا وسیب بیدار ہو چکا ہے ۔ جہاں شاہ محمود قریشی صاحب کو دستی سے ملنے نا دیا جا رہا ہوں کہ اللہ جانے کوئی اس نے قتل کر دیا ہے ؟۔ میں پارلیمانی کلاس جو کہ اس وسیب سے منتخب ہو کر گئے ہیں اُن کا قصور نہیں ہے بھائی سرائیکی وسیب میں گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے بعد جب وہ اسمبلی میں جاتے ہیں تو ٹھنڈی مشین کی ٹھنڈنک اُن کی زبانوں کو چُپ کروا دیتی ہے ۔
اساں قیدی تخت لاہور دے
۔ساڈے سردار ۔نوکر کسی ہور دے
اب اس وسیب کو جاگنا ہو گا ایک جمشید کے لیے نہیں اپنے حق کے لیے ۔اپنے آنے والے مستقبل کے لیے نواجوانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اپنے لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں بتا نا ہوگا ۔شکریہ کے ساتھ ڈاکٹر خیال امروہی صاحب کا ایک شعر اس وسیب کے لوگوں کی نظر
مظلوم کو دیتا ہے کہاں حق کوئی غاصب
حق چھیننا پڑتا ہے لٹیروں سے جھپٹ کر
نوٹ ( تمام دوست اپنی رائے سے آگاہ ضرور کریں اور اگر متفق ہوں تو مزید دوستوں کے ساتھ شیئر کریں ۔اللہ آپ کو آسانیاں عطافرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے