پیپلزپارٹی کا وفاقی حکومت پر سندھ ہاؤس پر حملے کی منصوبہ بندی کا الزام
پاکستان تحریک
انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اپنے کچھ قانون سازوں کو اپوزیشن کے ایما پر اسلام آباد
کے سندھ ہاؤس میں چھپانے کے الزام کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) نے کہا ہے
کہ حکومت سندھ ہاؤس پر حملے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
پنجاب اسمبلی
کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایک درجن کے
قریب اراکین قومی اسمبلی لاپتا ہوجانے کے بیان کے بعد حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن
نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ سے قبل حکمران جماعت
کے کچھ قانون سازوں کو سندھ ہاؤس میں چھپا لیا ہے۔
وزیر اعظم عمران
خان نے ایک عوامی خطاب میں کہا تھا کہ اپوزیشن رہنما حکومتی قانون سازوں کی وفاداریاں
خریدنے کے لیے نوٹوں کے تھیلوں کے ساتھ سندھ ہاؤس میں بیٹھے ہیں۔
انہوں نے الیکشن
کمیشن سے مبینہ ہارس ٹریڈنگ کے خلاف کارروائی کرنے کو بھی کہا تھا۔
اسی روز پیپلز
پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کے ہمراہ
پریس کانفرنس کے دوران سندھ ہاؤس میں کچھ قانون سازوں کے قیام کی تصدیق کرتے ہوائے
کہا تھا کہ ہر رکن کو وہاں رہنے کا حق ہے۔
تاہم انہوں
نے کہا تھا کہ یہ اراکین اپوزیشن اور ہمارے اتحادیوں میں سے ہیں، وہاں ایم این ایز
کو اس لیے رکھا گیا کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ انہیں عدم اعتماد کے ووٹ سے پہلے اغوا
کیا جا سکتا ہے۔
فیصل کریم کنڈی
کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران شازیہ مری نے بھی وزیر اعظم کی ان ’جعلی خبروں‘ کی
تردید کی تھی کہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو سندھ ہاؤس میں رکھا گیا ہے۔
ادھر پی پی
پی کے اراکین قومی اسمبلی، عبدالقادر پٹیل، عبدالقادر مندوخیل، عابد حسین بھیو، جاوید
شاہ جیلانی، احسان مزاری، نوید ڈیرو اور مہرین بھٹو نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے
الزام لگایا کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت دہشت گردی کرنے پر تلی ہوئی ہے اور سندھ
ہاؤس پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
انہوں نے دعویٰ
کیا کہ ان کے پاس ایسی اطلاعات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اسلام آباد پولیس اور پی ٹی
آئی کی ٹائیگر فورس حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی
کے اراکین پارلیمنٹ نے کہا کہ اگر سندھ ہاؤس یا اس کے اراکین کو کوئی نقصان پہنچا تو
حکومت ذمہ دار ہوگی اور یہ قانون اور آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔
پیپلز پارٹی
کے اراکین کا کہنا تھا کہ انہوں نے حکومت سندھ سے درخواست کی تھی کہ انہیں سندھ ہاؤس
میں رہائش فراہم کی جائے کیونکہ گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ لاجز میں داخل ہونے والی جمیعت
علمائے اسلام (ف) کی رضاکارانی فورس انصار الاسلام کے ارکان کو منتشر کرنے کے لیے اسلام
آباد پولیس کی جانب سے کیے گئے آپریشن کے بعد وہ پارلیمنٹ لاجز میں محفوظ محسوس نہیں
کر رہے۔
قانون سازوں
نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے غیر قانونی طور پر چھاپے مارے اور لوگوں کی زندگیوں
کو خطرے میں ڈالا، اس لیے انہوں نے سندھ پولیس سے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ یہ
ان کا قانونی اور آئینی حق ہے۔
علی زیدی کا
سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو خط
دریں اثنا وفاقی
وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے سندھ حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں اسپیشل سیکیورٹی
یونٹ (ایس ایس یو) کے 400 پولیس گارڈز جمع کرنے پر سوال اٹھایا ہے۔
On what grounds has the Govt of Sindh assembled a private army of 400 armed SSU police guards in the Federal Capital?
— Ali Haider Zaidi (@AliHZaidiPTI) March 17, 2022
I will be officially writing to Secretary Establishment today demanding an investigation against SSU DIG Maqsood Memon for allowing this nonsense.
انہوں نے اسٹیبلشمنٹ
سیکرٹری کو ایک خط لکھا جس میں ایس ایس یو کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) مقصود
میمن کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں فورس کو جمع ہونے کی اجازت دینے کی واضح خلاف ورزی
کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔
علی زیدی نے
کہا کہ انکوائری مکمل ہونے تک ڈی آئی جی کو معطل کیا جائے۔
ایک روز قبل علی زیدی نے الزام لگایا کہ یہ فورس پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو رشوت دینے کے لیے استعمال ہونے والے پیسوں کے تھیلوں کی حفاظت کے لیے سندھ ہاؤس میں تعینات کی گئی ہے۔
So all rooms in Sindh House full!
— Ali Haider Zaidi (@AliHZaidiPTI) March 14, 2022
300 Sindh Police SSU arrive in Islamabad. This in addition to 70+ who accompanied their wrong march & the 30 who are always posted at Sindh House!
All this maybe to protect the bags of looted wealth #ZardariMafia brought to try & bribe our MNAs!
0 تبصرے