Ticker

3/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

ملتان کی ایشیا میں مذہبی اہمیت

 ملتان (تعمیر نیوز سپیشل ) جب 852 سال پہلے ہجری 566 اور سن 1146ء میں ملتان کے قریب کروڑ میں حضرت بہائو الدین زکریا سہروردی ؒ پیدا ہوئے تو ملتان میں مذہب اسلام نے بڑی بھرپور کروٹ لی اور صرف 95 سال میں ملتان جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے بڑا مذہبی شہر بن گیا ۔ ہجری 620 سن 1200ء کے بعد سے تو پرہلاد کا مندر ویران اور شیخ الاسلام کا مدرسہ ذیشان ہوتا گیا ۔ پھر وقت کا کارواں گزرتا گیا اور 9 رمضان المبارک ہجری 649 بروز جمعہ کے دن حضرت شاہ رکن عالم دنیا میں تشریف لائے تو اس خطے میں اسلام کی بھرپور چکا چوند تھی اور اس عہد میں ملتان قطبوں ، ولیوں اور ابدالوں کا مرکز تھا ۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒء اور حضرت خواجہ معین الدین اجمیری ؒ کے ملتان میں قیام کے بعد اس شہر کی مذہبی ولایت میں بے حد اضافہ ہوا ۔ ملتان کی مذہبی ولایت دنیا بھر میں تسلیم کی گئی ۔ 800 سالوں کے دوران سلاطین وقت ، اقطاب زمانہ ، امیران سلطنت ، ملک التجار ، امرائے ممالک ، فقہاء و ملحاء ، مدبران ملک و قوم غرضیکہ ہر طرح کے معروف لوگ ملتان آتے رہے اور ملتان کے مزارات ہر آنے والے کو روحانیت کا تحفہ عطاء فرماتے رہے ۔
 قیام پاکستان کے بعد ملتان کی کئی اور حیثیتیں ابھر کر سامنے آئیں لیکن مذہبی ولایت اسی طرح سب سے زیادہ بلند اور روشن رہی ۔ لہٰذا آج کے ڈاکٹر مہاتیر محمد کے پہلے وزیر اعظم تنکو عبدالرحمن تھے جن کی مسلسل جدوجہد سے ملایا آزاد ہوا تھا اور 31 اگست 1957ء کو ملایا کی آزادی کا اعلان ہوا تھا ۔ 1958ء میں تنکو عبدالرحمن ملایا کے وزیراعظم بن چکے تھے پھر بعد میں چھوٹے جزائر کے مل جانے سے ملایا ، ملائیشیا بن گیا۔ تنکو عبدالرحمن سلطان عبدالحمید حلیم شاہ کی ساتویں اولاد تھے اور 3 فروری 1903ء کو ملایا میں پیدا ہوئے تھے ۔ ابتدائی تعلیم بنکاک سے حاصل کی اور گریجوایشن کیمبرج یونیورسٹی سے کیا تھا ۔ پھر ملایا کی وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے صرف 6 ماہ بعد مارچ 1964ء میں وہ پاکستان آئے ۔ پاکستان آنے کا واحد مقصد ملتان میں حضرت بہائوالدین زکریا ؒ اور حضرت شاہ رکن الدین عالمؒ کی درگاہوں پر حاضری تھا ۔ تنکو عبدالرحمن کی پاکستان آمد کا سرکاری اعلان ہوا اور ملتان آنے کا پروگرام طے ہوا تو ملتان کی سڑکیں دھلنے اور دیواریں صاف ہونے لگیں ۔ تنکو عبدالرحمن اسلام آباد پہنچے تو سابق صدر محمد ایوب خان نے ان کا استقبال کیا ۔ وہ پہلے سربراہ مملکت تھے جو قیام پاکستان کے بعد اس شہر میں خود اپنی خواہش پر آئے ۔ ان کے بعد گزشتہ 34 سال سے کوئی غیر ملکی وزیراعظم ملتان نہیں آیا ۔ 
 ملتان پہنچتے ہی ملائیشیا کے وزیراعظم تنکو عبدالرحمن سیدھے شیخ الاسلام حضرت بہائوالدین زکریا کے آستانے پر پہنچے ۔ وہ بہت دیر تک سر جھکائے عقیدت سے کھڑے رہے ۔ وہیں سے وہ حضرت شاہ رکن الدین عالمؒ کے مزار پر پہنچے ۔ روحانیات کی عجیب سی شبنم اس جگہ بھی اس طرح برس رہی تھی ۔ مزار کی تعمیر دلکشی اپنی جگہ تھی ۔ اس کے گنبد کا حسن ایسا جیسے ملتان کے سر پر تاج ولایت رکھا ہو ۔ 1935ء میں لاہور میں بذریعہ ٹرین لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کراچی جاتے ہوئے ملتان رکے اور فاتحہ کے لیے مزارات پر آئے تھے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ملتان والے خوش نصیب ہیں کہ قطبوں کی روحانیت کے سائے میں رہتے ہیں ۔ ملتانی طرز تعمیر میں ہندوستان سے زیادہ ایرانی رنگ نمایاں ہے ۔ روغنی ٹائلوں اور شیشہ کاری کا استعمال ایرانی اثر کی وجہ سے ہی ہے ۔ سرخ ، پتلی اور چپٹی اینٹوں اور لکڑی کا استعمال ملتانی طرز تعمیر کی دو نمایاں خصوصیات ہیں ۔ اینٹوں کے ساتھ ساتھ خوبصورتی اور مضبوطی کے لیے ہلکے اور گہرے نیلے رنگوں کی ٹائلیں استعمال کی گئیں جو صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی اس دور کے فنکاروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں اس طرح لکڑی کا استعمال بھی ملتانی تعمیر کا ایک خاصہ ہے ۔
لکڑی کے شہتیر جس طرح عمارتوں کی دیواروں میں چنے گئے ہیں اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی ۔ دروازے ، کھڑکیاں اور جھروکے بھی ابھی تک اپنی مثال آپ ہیں ۔ تمام عمارات اپنے اپنے بنانے والوں اور اس دور کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں جب انہیں تعمیر کیا گیا ۔ ممتاز ماہر تعمیرات کامل خان ممتاز کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں روایتی تاریخی تعمیراتی ورثہ ختم ہو رہا ہے ۔ 1990ء میں ایک برطانوی کمپنی نے ملتان میں قدیم تعمیراتی ورثے کا سروے کیا تو 124 عمارتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی سفارش کی تھی ۔ اس وقت ملک میں 1975ء کا مرکزی اور پنجاب میں 1985ء کا صوبائی دو ایسے قوانین ہیں جو کسی عمارت یا تاریخی یادگار کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔ یہ قوانین اتنے کمزور ہیں کہ کبھی بھی اور کہیں بھی ان پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔ نیز پاکستان میں ابھی تک علاقے کو تحفظ دینے کا تصور نہیں ہے ۔ سروے کرنے والی غیر ملکی فرم نے یہ بھی سفارش کی تھی کہ ملتان میں اندرون شہر قلعہ کہنہ قاسم باغ اور سورج میانی محلے کو محفوظ علاقے قرار دے کر ان کے تاریخی وجود اور حیثیت کو قائم رکھا جائے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے