Ticker

3/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

عید کی خوشیوں میں گم اداس چہرے۔۔۔۔۔۔تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

عید کی خوشیوں میں گم اداس چہرے۔۔۔۔۔۔تحریر: فاروق شہزاد ملکانیّّّّّّ ________________
عید قرباں تمام اہل اسلام کیلئے خوشیوں اور ایثار کا پیغام لاتی ہے۔بچے ،بوڑھے،مردو عورت اس دن کو نئے ولوے ،جوش اور عقیدت کے ساتھ مناتے ہیں۔صاحب ثروت قربانی کا اہتمام کرتے ہیں،خود اور اہل خانہ کونئے نئے ملبوسات زیب تن کراتے ہیں۔
مگر ان کے بیچ بہت سے افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ تو قربانی کرتے ہیں اور نہ ہی ڈھنگ کا لباس پہنتے ہیں۔ان کے پژمردہ چہروں پر اداسی کی لکیریں صاف دکھائی دیتی ہیں۔قربانی کرنے کی بجائے وہ خود قربانی کا بکرا بنے ہوتے ہیں اور وہ کبھی ملک کے نام پر تو کبھی مذہب کے نام پر قربان ہوتے ہیں۔
فلاحی ریاست کے نام پر ہمارے حکمران ان سے حب الوطنی کا ثبوت دینے کیلئے ہر روز ہر لمحے قربانی مانگتے ہیں اور وہ بے چارے لبیک کہتے ہوئے اپنا سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔ غریب آدمی اگر اپنے گھرکا چولہا جلانے کیلئے ماچس کی ڈبیہ بھی خرید لے تو اسے ٹیکس در ٹیکس کی مدمیں 30 % سے زائد قربانی دینا پڑتی ہے جبکہ اربوں کمانے والے ہمارے سر کے سائیں ایک دھیلا بھی ٹیکس دینا گوارا نہیں کرتے۔باقی رہا اشیاء ضروریہ پہ ٹیکس دینے کی بات تو وہ اپنی تمام تر خریداری سرحد پار کے ممالک سے کرتے ہیں اور اپنی معیشت کا بیڑا غرق کرکے اغیار کی نیاپارلگانے میں بھرپورکردار ادا کرتے ہیں اورپاکستان آکے سادہ لوح عوام کو جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کیلئے انہی ممالک کے خلاف جھوٹ موٹ کے مردہ باد کے نعرے لگواتے ہیں۔
بھوک اور افلاس کی ماری عوام جھوٹ اور فریب کے گورکھ سوراخوں سے با ربار ڈسنے کے باوجود ہربار پھر سے دھوکہ کھانے کیلئے تیار ہوتی ہے اور شکاری نیا جال لے کر شکار کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور ہمیشہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اور بے چاری عوام ان کی فتح پر اور اپنی ناکامی پر شادیانے بجاتی ہے اور بعدازاں اپنی قسمت پر ماتم کناں ہوتی ہے مگر اپنی حرکتوں سے سبق حاصل نہیں کرتی۔اگلی بار پھر وہی عمل دہراتی اور اپنی بربادی پر خوشیوں کے بینڈ بجاتی ہے اور کچھ ہی دنوں میں آنسو بہاتی نظر آتی ہے۔
طاقت کی غلام گردشوں کے نامور کھلاڑی اپنا کھیل کھیلنے میں نہ صرف مہارت دکھاتے ہیں بلکہ اپنی فتح کو یقینی بنانے کیلئے ہر داؤ پیچ آزماتے ہیں اور یوں کامیابی ان کے قدم چومتی ہے اور صرف دلفریب نعروں سے بہل جانے والی عوام ایک بار پھر مصیبتوں میں گھری نظر آتی ہے۔
ہوس زر کے مارے اس بالادست طبقے نے عام عوام کو روزی روٹی سے بھی محروم کردیا ہے۔ 
وطن عزیزمیں ہر میدان میں واضح طور دو طبقوں کے بیچ میں لکیر کھنچی ہوئی ہے،ایک طرف وہ طبقہ ہے جو منہ میں سونے کاچمچہ لے کر پیدا ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ طبقہ ہے جسے دیکھ ہر ذی شعور اور حساس انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا ہی کیوں کیا ہے۔ فاقے اور بدحالی کی انتہادیکھ کر بھی اس بالادست طبقے کے دلوں پر احساس کی ہلکی سے آہٹ بھی نہیں ہوتی کہ آخر اس دنیا سے اٹھ ہی جانا ہے پھر کس منہ سے اپنے خالق حقیقی کے دربار میں پیش ہوں گے۔
مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ان کی ہوس شاید ختم نہیں ہوگی۔عام آدمی عام ہی رہے گااگر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرے گا ،اپنے شعور کو جلا نہیں بخشے گا، اپنے فیصلے خود نہیں کرے گا اور فیصلہ کرتے وقت تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح وقت پر صحیح فیصلے نہیں کرے گااور ایک سوراخ سے ایک بار ڈسے جانے کے بعد دوسری بار دھوکہ نہیں کھائے گا۔کسی بھی سیاسی پارٹی کا جیالا،متوالا اور دیوانہ نہیں بنے گا صرف میرٹ پر مقامی طور پر اچھے،ایماندار اور باکردار شخص کو چن کر اسمبلی میں نہیں بھیجے گا۔
اگر ہم نے بحیثیت قوم ایک ہوکر اپنی حالت بدلنے کا تحیہ نہ کیا تو آئندہ بھی وہی کچھ ہوتا رہے گا جو قیام پاکستان سے آج تک ہوتا آیا ہے،آپ کے حق پر کوئی غاصب ہی قابض رہے گااور آپ کے بچے یوں ہی بغیرچھت،ننگے پاؤں اور بھوکے پیاسے رہیں گے۔
آج سے تحیہ کر لیں کہ آج کے بعد ووٹ صرف اسی کو دیں گے جو آپ کے ضمیر کے مطابق نیک ،ایمانداراور ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ رکھنے والا ہو۔کسی نیلی پیلی سبز سرخ اور سفید پارٹی کے چنگل میں پھنسے بغیراور کسی تمندار،سردار،گدی نشین ،پیراور سیاسی شعبدہ باز کے جال میں آئے بغیر اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں گے اور یہی سوچ کر فیصلہ کریں گے کہ یہ 
" ہمارے بچوں کی زندگی کا سوال ہے" 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے