کوئٹہ (مانیٹرنگ ڈیسک) پولیس ٹریننگ کالج کو دہشتگرد حملے کے بعد کلیئر کرا لیا گیا۔ ہاسٹل میں شدید فائرنگ اور زور دار دھماکے ہوئے۔ پاک فوج اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا کامیاب آپریشن کر کے 250 سے زائد اہلکاروں کو بازیاب کرا لیا۔ حملے میں 59 اہلکار شہید اور 118 زخمی ہو گئے۔ تین دہشت گردوں نے رات کے وقت پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ کیا۔ دہشتگردوں نے فائرنگ کر کے واچ ٹاور پر موجود اہلکار کو شہید کیا اور پھر ہاسٹل میں موجود اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔ اطلاع ملتے ہی پاک فوج کی اسپیشل ٹیم، ایف سی اور اے ٹی ایف اہلکاروں نے علاقے کا محاصرہ کیا۔ پاک فوج اور ایف سی کمانڈوز کی کارروائی میں ایک بمبار مارا گیا جبکہ دو نے خود کو دھماکوں سے اڑا لیا۔ آپریشن کے دوران ہیلی کاپٹرز سے فضائی نگرانی بھی کی گئی۔ دہشتگردوں کے حملے میں درجنوں اہلکار زخمی ہوئے جنہیں اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر کے ڈاکٹروں کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں۔ اس دوران آپریشن بھی جاری رہا اور فورسز نے تقریبا تین گھنٹے میں عمارت کو کلیئر کرا لیا۔
آئی جی ایف سی کا کہنا تھا کہ 'حملے میں 3 دہشت گرد شامل تھے جنھوں نے خود کش جیکٹ پہن رکھی تھی اور دو نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ تیسرے کو آپریشن کے دوران ہلاک کردیا گیا'.
ان کا کہنا تھا ہم نے فوری آپریشن شروع کیا اور آپریشن کو مکمل کرنے میں چار گھنٹے لگے.
شیرافگن کا کہنا تھا کہ کالج میں زیر تربیت زخمی اہلکاروں میں کسی کو سنجیدہ زخم نہیں آئے تاہم آپریشن میں حصہ لینے والے چند فوجی اہلکار شدید زخمی ہوئے.
سرفرازبگٹی کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے سب سے پہلے چیک پوسٹ پر موجود سنتری کو نشانہ بنایا جو موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا جس کے بعد دہشت گرد ٹریننگ کالج میں داخل ہوئے۔
پولیس کے مطابق ٹریننگ کالج کے ہاسٹل میں 600 کیڈٹس زیر تعلیم تھے جس کو سیکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن کے بعد کلیئر کردیا گیا۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ 4 سے زائد حملہ آور ٹریننگ کالج کے پچھلے راستے سے عمارت میں داخل ہوئے تھے جن کے خلاف فوج، ایف سی اور پولیس کمانڈوز کی جانب سے آپریشن کیا گیا اور 250 سے زائد کیڈٹس کو بازیاب کرا لیا گیا۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی ایف سی، فوج اور پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کر ٹریننگ کالج اور اس کے اطراف کے علاقوں کو گھیرے میں لے لیا۔
ادھر صوبائی حکام کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد کوئٹہ کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے عملے کو فوری طور پر طلب کرلیا گیا ہے۔
ایک عینی شاہد نے میڈیا کو بتایا کہ 3 سے 4 دہشت گرد ٹریننگ سینٹر میں داخل ہوئے تھے اور فائرنگ شروع کردی جس کے بعد افراتفری پھیل گئی اور متعدد افراد ہاسٹل کی جانب چلے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس وقت حملہ آور ہاسٹل میں داخل ہوئے اس وقت 10 سے 12 افراد موجود تھے، ان کاکہنا تھا کہ حملہ آور ساڑھے 9 بجے ٹریننگ سینٹر میں داخل ہوئے جنھوں نے نے نقاب پہن رکھے تھے۔
ادھر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فوج اور ایف سی کی بھاری نفری موقع پر پہنچ کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کردیا۔
اس دوران وزیراعلیٰ بلوچستان کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں صوبائی انتظامیہ کے علاوہ فوجی حکام اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اعلیٰ اہلکار بھی موجود تھے جہاں آپریشن کے حوالے سے حکمت عملی اپنائی گئی۔
وزیراعظم نواز شریف نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد قوم کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔
انھوں نے زیر تربیت پولیس اہلکاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہدایات بھی جاری کیں۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور گیارہ بجے پولیس ٹریننگ کالج میں داخل ہوئے تھے، ٹریننگ سینٹر شہر سے باہر دیہی علاقہ میں قائم ہے.
انھوں نے بتایا کہ تین چار روز قبل دہشت گردی کے حوالے سے انٹیلی جنس اداروں نے اطلاعات دی تھیں، جس میں بتایا گیا کہ تین چار دہشت کوئٹہ میں داخل ہوئے ہیں۔
دوسری جانب وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے۔
انھوں نے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں۔
خیال رہے کہ سریاب روڈ کا علاقہ سیکیورٹی حوالے سے انتہائی حساس علاقہ قرار دیا جاتا ہے جہاں ماضی میں متعدد مرتبہ دہشت گردوں نے سیکیورٹی اہلکاروں اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے جبکہ حکام کا کہنا تھا کہ مذکورہ پولیس ٹریننگ کالج کو پہلے بھی نشانہ بنایا چکا ہے۔
کسی بھی تنظیم یا گروپ نے پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
تاہم ماضی میں صوبہ بلوچستان میں مختلف کالعدم تنظیمیں، سیکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث رہی ہیں جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے صوبے میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا ہم نے فوری آپریشن شروع کیا اور آپریشن کو مکمل کرنے میں چار گھنٹے لگے.
شیرافگن کا کہنا تھا کہ کالج میں زیر تربیت زخمی اہلکاروں میں کسی کو سنجیدہ زخم نہیں آئے تاہم آپریشن میں حصہ لینے والے چند فوجی اہلکار شدید زخمی ہوئے.
سرفرازبگٹی کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے سب سے پہلے چیک پوسٹ پر موجود سنتری کو نشانہ بنایا جو موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا جس کے بعد دہشت گرد ٹریننگ کالج میں داخل ہوئے۔
پولیس کے مطابق ٹریننگ کالج کے ہاسٹل میں 600 کیڈٹس زیر تعلیم تھے جس کو سیکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن کے بعد کلیئر کردیا گیا۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ 4 سے زائد حملہ آور ٹریننگ کالج کے پچھلے راستے سے عمارت میں داخل ہوئے تھے جن کے خلاف فوج، ایف سی اور پولیس کمانڈوز کی جانب سے آپریشن کیا گیا اور 250 سے زائد کیڈٹس کو بازیاب کرا لیا گیا۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی ایف سی، فوج اور پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کر ٹریننگ کالج اور اس کے اطراف کے علاقوں کو گھیرے میں لے لیا۔
ادھر صوبائی حکام کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد کوئٹہ کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے عملے کو فوری طور پر طلب کرلیا گیا ہے۔
ایک عینی شاہد نے میڈیا کو بتایا کہ 3 سے 4 دہشت گرد ٹریننگ سینٹر میں داخل ہوئے تھے اور فائرنگ شروع کردی جس کے بعد افراتفری پھیل گئی اور متعدد افراد ہاسٹل کی جانب چلے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس وقت حملہ آور ہاسٹل میں داخل ہوئے اس وقت 10 سے 12 افراد موجود تھے، ان کاکہنا تھا کہ حملہ آور ساڑھے 9 بجے ٹریننگ سینٹر میں داخل ہوئے جنھوں نے نے نقاب پہن رکھے تھے۔
ادھر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فوج اور ایف سی کی بھاری نفری موقع پر پہنچ کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کردیا۔
اس دوران وزیراعلیٰ بلوچستان کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں صوبائی انتظامیہ کے علاوہ فوجی حکام اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اعلیٰ اہلکار بھی موجود تھے جہاں آپریشن کے حوالے سے حکمت عملی اپنائی گئی۔
وزیراعظم نواز شریف نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد قوم کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔
انھوں نے زیر تربیت پولیس اہلکاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہدایات بھی جاری کیں۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور گیارہ بجے پولیس ٹریننگ کالج میں داخل ہوئے تھے، ٹریننگ سینٹر شہر سے باہر دیہی علاقہ میں قائم ہے.
انھوں نے بتایا کہ تین چار روز قبل دہشت گردی کے حوالے سے انٹیلی جنس اداروں نے اطلاعات دی تھیں، جس میں بتایا گیا کہ تین چار دہشت کوئٹہ میں داخل ہوئے ہیں۔
دوسری جانب وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے۔
انھوں نے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں۔
خیال رہے کہ سریاب روڈ کا علاقہ سیکیورٹی حوالے سے انتہائی حساس علاقہ قرار دیا جاتا ہے جہاں ماضی میں متعدد مرتبہ دہشت گردوں نے سیکیورٹی اہلکاروں اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے جبکہ حکام کا کہنا تھا کہ مذکورہ پولیس ٹریننگ کالج کو پہلے بھی نشانہ بنایا چکا ہے۔
کسی بھی تنظیم یا گروپ نے پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
تاہم ماضی میں صوبہ بلوچستان میں مختلف کالعدم تنظیمیں، سیکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث رہی ہیں جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے صوبے میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں اضافہ ہوا ہے۔
0 تبصرے