Ticker

3/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

تھانہ بی ڈویژن ڈیرہ غازی خان کا دل سوز مشہور قتل کیس، مدعی ہی قاتل نکلا


ڈیرہ غازی خان: تھانہ بی ڈویژن ڈیرہ غازی خان کا دل سوز مشہور قتل کیس، انکوئری آفیسر کی محنت رنگ لے آئی۔ سالی سے چوتھی شادی کا خواہش مند، عیاش اور جنسی ہو س پرست  مدعی ہی قاتل نکلا۔ تفصیلات کے مطابق
ڈیرہ غازی خان کے علاقہ سجاد آباد میں قاتل نذر حسین چانڈیہ اپنی تین بیویوں، اُن کے بچوں، پاگل بیوہ ساس اور ایک سالی کے ہمراہ رہائش پذیر ہے۔ قاتل عفت فروشی کا دھندہ چلاتا ہے۔ اُس کی دو بیویاں اِس کی معاون ہیں۔مقتولہ ثریا بی بی قاتل کی دوسری بیوی تھی۔ جوکہ شریف عورت تھی اور اُسے غلط کاموں سے روکتی رہتی تھی۔ قاتل کا پانچ مرلے کا مکان ہے جس میں تین کمرے ہیں ۔ ہر ایک کمرے میں ایک بیوی رہائش پذیر ہے۔ جبکہ گھر کا بالائی حصہ عفت فروشی کے لیے استعمال کرتا تھا۔ جسم فروشی کے لیے رانی نامی میڈم ملتان سے کال گرلز فراہم کرتی تھی۔ جنہیں رکشہ اورموٹر سائیکل پر پک اینڈ ڈراپ کیا جا تا تھا۔ 
قاتل مقتولہ ثریابی بی کی چھوٹی بہن رقیہ بی بی سے ناجائز جنسی تعلقات استوار کر چکا تھا۔ اب سالی سے چوتھی شادی کرنا چاہتا تھا۔ ثریا بی بی راستے کی رکاوٹ تھی۔ جس کو ہٹانے کے لیے مشہور کر دیا کہ اِس پر ہندو جنوں کا سایہ ہے۔ یہ پاگل ہو گئی ہے۔ اِس ڈرامے کو مکمل کرنے کے لیے جعلی عامل امان اللہ درکھان اور اُس کے شاگرد حمید کی خدمات اپنے بھتیجے عبدالستار کی معرفت حاصل کیں۔ انہیں پیسوں اور عورتوں کا لالچ دیا گیا۔ 
جعلی عامل امان اور حمید نے مقتولہ کو گھر میں درخت کے ساتھ رسی سے باندھ کر لٹکا دیا۔ اُس کے نیچے آگ جلا دی۔ پھر جلی ہوئی لکڑیوں سے اُس کو داغتے رہے۔ مسلسل تشدد سے وہ نیم بے ہوشی ہو گئی۔ اِس دوران مقتولہ کے بچے انہیںتشدد سے روکتے رہے لیکن ظالمو ں نے ایک نہ سنی۔ جب مقتولہ بے ہوش ہوئی تو اُس کو کمرے میں لیٹا دیا گیا۔ اِسی دوران دیگر اہل خانہ کو کہا گیا کہ وہ اپنے اپنے کمروں میں رہیں تاکہ ہندو جن اُن پر سایہ نہ کر دیں۔ اکیلے کمرے میں قاتل شوہر نے رسی سے ثریا بیوی کا گلہ دبا دیا ۔ قتل چھپتا نہیں۔ قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ اچانک اُس کی چھوٹی بیٹی نے باپ کو ماں کا گلہ دباتے ہوئے دیکھ لیا۔ اب جب انکوئری شروع ہوئی تو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ ، مقتولہ کے گلے پر رسی کے نشان اور بچی کے بیان نے راز فشا کر دیا۔ حالانکہ قاتل پہلے اِسی کیس کا مدعی بنا ہوا تھا۔

نیوز رپورٹ (دی نیشن)مورخہ یکم مارچ2017

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے