Ticker

3/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

پانامہ لیکس کیس، مزید تفصیلات

 پاناما کیس کا فیصلہ آگیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نااہل نہیں ہوئے۔

سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں 540 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنا دیا۔ فیصلے کے ابتدائی نکات میں کہا گیا ہے کہ رقم کیسے قطر منتقل کی گئی اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

چیئرمین نیب غیر رضامند پائے گئے اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

چیئرمین نیب اپنا کام کرنے میں ناکام رہے اس لئے جے آئی ٹی بنائی گئی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم، حسن نواز اور حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں۔
جے آئی ٹی ہر دو ہفتے بعد اپنی رپورٹ پیش کرے۔

ڈی جی ایف آئی اے وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کرنے میں ناکام رہے۔

جے آئی ٹی میں ایم آئی ، ایف آئی اے ، آئی ایس آئی کے نمائندے شامل ہونگے
فیصلے میں جسٹس گلزار اور جسٹس کھوسہ کا اختلافی نوٹ 
تین ججوں کی رائے ہے کہ معاملے تحقیقات ہونی چاہئیں ۔
دو ججز نے وزیراعظم کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا کہا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی 7دن کے اندر بنائی جائے ۔جے آئی ٹی 60دن میں اپنی تحقیقات مکمل کرے ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔

فیصلے کا تناسب تین اور دو ججز ہے یعنی تین ججز ایک جانب اور دو دوسری جانب ہے۔ فیصلہ مجموعی طور پر پانچ سو چالیس صفحات پر مشتمل ہے۔

کیس کا فیصلہ 5 رکنی لارجر بنچ کےسربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کورٹ روم نمبر ون میں پڑھ کر سنایا۔

اس سے قبل مختلف سیاسی رہنما باری باری سپریم پہنچنے۔ کورٹ کے باہر میڈیا ، سیکورٹی اسٹاف اور سیاسی کارکنوں کا رش ہے ۔

پاناما کیس کا فیصلہ سننے کیلئے آنے والوں سے کمرہ عدالت بھر ہوا تھا۔کمرے میں تل دھرنے تک کی جگہ نہیں تھی۔ صرف ڈپٹی رجسٹرار کے دستخط شدہ پاس رکھنے والوں کو کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت دی گئی تھی۔

کمرہ عدالت میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے رہنما موجود تھے جن میں مریم اورنگزیب، مصدق ملک، عابد شیر علی، دانیال عزیز، طارق فضل چوہدری، طلال چوہدری، شیریں مزاری، عارف علوی، نعیم الحق اور فواد چوہدری شامل ہیں۔

جب بھی کوئی کارکن عدالت پہنچتا اس کے پارٹی کارکنان نعرے لگانا شروع کردیتے ۔ اس حوالے سے لمحہ بہ لمحہ تفصیلات درج ذیل ہیں:

عمران خان کی سپریم کورٹ آمد 
سپریم کورٹ کے داخلی راستے پر رش کے باعث عمران خان کو سپریم کورٹ میں داخل ہونے کیلئے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

عمران خان کی سپریم کورٹ آمد پر صحافیوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا اور پاناما کیس کے فیصلے کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ جو ہوگا انشاء اللہ بہتر ہوگا اور ملک کے مفاد میں ہوگا۔

پاناما کیس کی سماعت کے دوران 35سماعتوں میں 25ہزار دستاویزات پیش کی گئیں، ان دستاویز کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ فیصلہ کس کے حق میں آئے گا، پورے ملک کی نظریں سپریم کورٹ پر جمی رہیں۔

پاناما لیکس میں آف شور کمپنیوں کے انکشاف پرعمران خان، شیخ رشید اور سراج الحق نے نواز شریف، اسحاق ڈار اور کیپٹن صفدر کی نا اہلی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔
 سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ۔ کیس کے حوالے سے عدالت میں 25 ہزار دستاویزات داخل کی گئیں۔ سپریم کورٹ نے 26 سماعتوں کے بعد 23 فروری 2017ء کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ تقریباً 55 دن کے طویل انتظار کے بعد آج دوپہر دو بجے یہ فیصلہ سنایا جائے گا۔

عمران خان، شیخ رشید اورسراج الحق کی عدالت سے استدعائیں :

پاناما کیس میں عمران خان ، شیخ رشید اور سراج لحق درخواست گزار تھے اور تینوں کی سپریم کورٹ سے ایک ہی استدعا تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا جائے۔
تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی درخواست میں 7 استدعائیں کی گئیں۔
۔وزیر اعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور کیپٹن صفدر کو قومی اسمبلی سے نا اہل قرار دیا جائے۔ 
 ۔منی لانڈرنگ کے ذریعے لوٹی گئی دولت سے برٹش ورجن آئی لینڈ اور دیگر جگہوں پر بنائی گئی کمپنیوں اور جائیدادوں کی رقم پاکستان لانے کا حکم دیا جائے۔
۔چیئرمین نیب کو حکم دیا جائے کہ گزشتہ 15 سال سے زیر التواء میگا کرپشن کیسز کی تحقیقات مکمل کی جائیں۔ 
۔سیکریٹری داخلہ کو نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا جائے۔ 
۔بیرون ملک جائیدادوں کی رقم واپس لانے کے لیے سیکریٹری قانون اور چیئر مین نیب کو کارروائی کا حکم دیا جائے۔
۔چیئر مین ایف بی آر کو شریف خاندان کے ٹیکس گوشواروں اور اثاثوں کی تحقیقات کا حکم دیا جائے ۔
۔ عدالت جو بھی مناسب سمجھے حکم جاری کرے۔ 
 شیخ رشید کی استدعا :
۔ وزیر اعظم آرٹیکل62اور63 پر پورا نہیں اترتے ،وہ صادق اور امین نہیں رہے ، انہیں نا اہل قرار دیا جائے ۔

سراج الحق کی استدعا :
۔وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے ، انہیں نا اہل قرار دیا جائے ۔ 
 سیکورٹی کے سخت اقدامات :

پاناما کیس کے فیصلے کے موقع پر شاہراہ دستور پر سپریم کورٹ کی بلڈنگ کے اطراف سخت سیکورٹی کےاقدامات کئے گئے تھے۔ سپریم کورٹ کے اطراف ایک ہزار پولیس، رینجرز اور سیکورٹی اہلکار تعینات کئے گئے جبکہ قریبی چوراہوں اور اہم عمارتوں کے ارد گرد بھی سیکورٹی اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔
سپریم کورٹ کا رخ صرف وہی افراد کرسکے جنہیں پاسز جاری کیے گئے۔ پولیس نے پاسز کی تصدیق شناختی کارڈز سے کی۔سیاسی کارکنوں کا ریڈزون میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا۔ کسی بھی غیر متعلقہ شخص کا ریڈزون میں داخلہ بند کردیا گیا جبکہ وی آئی پیز کے گارڈز کو بھی اسلحہ لانے کی اجازت نہ تھی۔ 

ایس پی سیکورٹی سپریم کورٹ نے تحریک انصاف سے پاناما کیس کے فیصلے کے لیے آنے والوں کی فہرست طلب کی تھی جبکہ پولیس نے سرکاری ملازمین کو بھی آفیشل کارڈز ہمراہ لانے کی ہدایت کی تھی۔ میڈیا کے نمائندوں کو بھی خصوصی پاسز جاری کیےگئے تھے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے