پاکستان میں خواتین کے تحفظ اور مقامی حکومت کو معاونت فراہم کرنے کے سافٹ وئیرز تیار کرنے والی 17 سالہ طاہرہ محمد مستقبل میں لڑکیوں کو تعلیم کے سلسلے درپیش مسائل پر ایک مکمل گیم بنانے کا ادارہ رکھتی ہیں تاکہ معاشرے میں انہیں پیش آنے والی مشکلات کو اس جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دیکھ کر حل کیا جاسکے۔
والد کے انتقال کے بعد سخت محنت اور گھروں میں ملازمت کرکے اپنے اس خواب کو حقیقت بنانے والی طاہرہ کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے ایک پسماندہ گاؤں سے ہے۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے طاہرہ نے بتایا کہ ان کے ان منصوبوں کا مقصد انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں خواتین کو آگے لے کر آنا ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ آج کے جدید دور میں یہ نہایت ضروری ہے جبکہ موجودہ وقت میں آئی ٹی کے بغیرکچھ ممکن نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ سوات کی لڑکیوں کیلئے ایک سافٹ وئیر کوڈنگ اسکول تعمیر کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس شعبے میں یہ لڑکیاں آگئے آکر اس ملک کا نام روشن کریں۔
طاہرہ نے کہا کہ انہیں بچپن سے ہی کمپیوٹر سائنس کا شوق رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید اضافہ ہوتا گیا جس کے بعد انھوں نے مقامی انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لے کر اپنے مقصد کو پورا کیا۔
طاہرہ نے بتایا کہ انھوں نے ایک بہت ہی مشکل وقت دیکھا ہے، کیونکہ والد کی وفات کے بعد سے ان کی والدہ اور وہ خود گھروں میں کام کیا کرتی تھیں، لیکن غربت کے باوجود بھی ان کا یہ شوق ذرا بھی کم نہ ہوا۔
طاہرہ نے کہا کہ انہیں بچپن سے ہی کمپیوٹر سائنس کا شوق رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید اضافہ ہوتا گیا جس کے بعد انھوں نے مقامی انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لے کر اپنے مقصد کو پورا کیا۔
طاہرہ نے بتایا کہ انھوں نے ایک بہت ہی مشکل وقت دیکھا ہے، کیونکہ والد کی وفات کے بعد سے ان کی والدہ اور وہ خود گھروں میں کام کیا کرتی تھیں، لیکن غربت کے باوجود بھی ان کا یہ شوق ذرا بھی کم نہ ہوا۔
انھوں نے کہا کہ وہ اپنے گھر کی واحد بیٹی ہیں اور وہ ناصرف خود تعلیم حاصل کررہی ہیں، بلکہ والدہ کی بیماری کے بعد سے بچوں کو پڑھا کر اپنے گھر کی کفالت بھی کرتی ہیں۔
اس سوال پر کہ آپ کیوں سمجھتی ہیں کہ لڑکیوں کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی ضروری ہے؟ تو طاہرہ کا کہنا تھا کہ میں دیکھتی ہوں پاکستان کے دیگر صوبوں کی لڑکیاں اس میں کافی آگے بڑھ رہی ہیں، لیکن سوات میں وسائل کی کمی کے باعث لڑکیاں اس پیشے کو اختیار بھی نہیں کرپاتیں، لہذا دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق یہاں کی لڑکیوں کیلئے یہ بہت اہم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ'میں نے ایسا کرنے کا ادارہ اپنی والدہ سے متاثر ہو کر کیا، کیونکہ میں سوچتی تھی کہ اگر وہ آج تعلیم یافتہ ہوتیں تو انہیں کسی کے گھر جاکر کام نہیں کرنا پڑتا اور یہی وہ سوچ ہے جس سے میں سوات کی لڑکیوں کا مستقبل بنانا چاہتی ہوں تاکہ وہ ان حالات سے نہ گزریں جوکہ میں اور میری ماں نے دیکھے ہیں'۔
خود اپنے مستقبل کے بارے میں بتاتے ہوئے طاہرہ نے کہا کہ وہ اس وقت 12ویں جماعت کی طالبہ ہیں، لیکن وہ سوات میں ہی ایک اچھی یونیورسٹی میں میں داخلہ لے اپنے تعلیمی کیرئیر کو مزید آگے لے کر جانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
واضح رہے کہ حال ہی میں ٹیکنالوجی کے ادارے ٹیک جوس کی جانب سے شائع کردہ 25 سال سے کم عمر کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ماہرین اور سماجی خدمات سر انجام دینے والے 25 نوجوانوں کی فہرست میں طاہرہ محمد کو پہلے نمبر پر رکھا گیا۔
اس فہرست میں اور بھی کئی کم عمر لڑکیاں اور لڑکے ہیں، جنہوں نے ٹیکنالوجی کے حوالے سے مختلف خدمات سر انجام دیں۔
0 تبصرے