Ticker

3/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

مزدوروں کے عالمی دن کا ڈرامہ ...تحریر | رفعت وانی

وہ پریشان حال گرد آلود کپڑوں اور من میں اٹھتے ہوے سوالوں میں گھرا تیز تیز قدم اٹھاتے ہوۓ گھر کی جانب گامزن تھا آج بے حد گرمی کے باعث اس کی ریڑھی سے کچھ نہ بکا تھا
اور آدھے سے زائد سبزی خراب ہو چکی تھی راستے میں وہ سوکھے ہوئے گلے سے آواز لگائے جا رہا تھا کہ شاید کسی خدا کے بندے کو اس پر ترس آ جائے اور اس سے کچھ سبزی خرید لے. مگر پبلک ہولی ڈے کے پیشِ نظر سب آوازیں بے سود ثابت ہوئی اور وہ گھر پہنچ گیا سب کوشش بے کار گئیں! وہ سوال جو دن بھر اس کا پیچھا کر رہے تھے اس کے سامنے دروازہ کھولے سوالیہ نظروں سے کھڑے تھے جن سے نظریں ملانے کی اس میں ہمت نہ تھی اور ان سوالیہ نظروں سے پچ کر گزرنا ہی چاہا تھا کہ دونوں ٹانگوں سے کچھ ناتواں جسم آگے لیپٹ گے ، ان کے ہاتھوں کی گرفت اتنی کمزور تھی جیسے جسم سے آدھی جان ہی نکلی ہوئی ہو .
ٹانگوں سے لیپٹی ہوئی نیم مردہ سی آواز کانوں سے ٹکرائی آبا آج کھانا ملے گا ! بہت بھوک لگی ہے ،آبا پرسوں سے کچھ نہیں کھایا.فقیر محمد بچوں کی آوازوں سے سم سا گیا اور بے بسی سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو کہ آنکھوں کے
آنسو اور شوہر کی مجبوری سمجھتے ہوئے شوہر کی جانب بڑھی اور بچوں کو شوہر سے الگ کرتے ہوئے بہلانے لگی اور سوالیہ نظروں سے شوہر کی طرف دیکھا! جس کی آنکھوں کی نمی نے جواب دے دیا تھا کہ آج بھی خالی ہاتھ لوٹا ہوں
جو 500روپے ادھار کی سبزی مارکیٹ سے اٹھائی تھی وہ آدھی سے زیادہ خراب ہو چکی ہے دونوں سے بچوں کی بھوک برداشت نہ ہوئی اور طے پایا کہ جو سبزی خراب ہوئی ہے اس کو پانی میں پکا کر بچوں کو دیا جاے
مگر جلانے کے لئے نہ تیل تھا نہ لکڑیاں سو پچوں لو ساتھ لے کر گندگی کے ڈھیر سے لکڑیاں اورکچھ کاغذ جمع کرکے شام کے کھانے کا کچھ بندوبست کیا جائے۔دو سے تین گھنٹے کے درمیان کچھ لکڑیاں کاغذ جمع ہوئے، جو ننھے ننھے ہاتھوں نے اپنی پوری بچی ہوئی طاقت سے جمع کئے تھے کہ آج گھر میں تین دن کے بعد کھانے کو کچھ ملے گا،اور پورا خاندان ایک امید کے ساتھ گھر کی طرف رواں دواں تھے۔
گویا پہنچتے ہی آگ جلائی گئی اور سبزی میں خوب سارا پانی ڈال کر پکنے کے لیے رکھا گیا، اور گھنٹے تک نمک،پانی اور سبزی کے آفرے دے تیار شدہ سوپ تیار تھا،اب وہی سوپ ایک بڑی سی گہری پلیٹ میں پیش کیا گیا جسے چاروں نے اللہ کا نام لے کر شکر ادا کر کے کھانا شروع کیا ہی تھا کہ اتنے میں ہمسائے سے ٹی وی ہر نیوز کی آواز آئی کہ آج یکم مئی کو پوری دنیا میں مزدوروں کا دن جوش خروش سے منایا گیا ، اور پوری ملک میں چھٹی تھی ۔راستوں پر بڑے بڑے بورڈ مزدوروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کےلیے لگائے گئے تھے اور بہت جہگوں پر مزدوروں کے دن کے حوالے سے بہت پروگرام منعقد کیے گئے تھے،یہ خبر کانوں میں پڑھتے ہی فقیر محمدنے ہاتھ کچھ دیر کو کھانے سے اٹھا دیا کہ شاہد مزدوروں کےلیے کسی طرح کا اعلان کیا جائے گا ، مگر خبریں اس کے ساتھ ہی اختتام کو پہنچی اور فقیر محمد نے مایوسی کے عالم میں دوبارہ نوالہ اٹھایا اور اگلے دن کے لیے پلان کرنے لگا کہ بچی ہوئی سبزیاں کون سے ایریا میں جاکے بیچے گا ۔
پوری دنیا میں مزدوروں کا دن بہت ہی انہماک سے بنایا جاتا ہے۔مگر عملی طور پر دیکھا جائے تو لاکھوں مزدوروں کو ایک وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔بڑے بڑے مگرمچھوں نے دنیا کے سرمائے پر قبضہ کر رکھا ہے۔لوگوں کو غریب سے غریب تر کیا جا رہا ہے مزدوروں کو انکے حق کا پیسا نہیں ملتا۔خون پسینہ ایک کرنے والامزدور اس قابل بھی نہیں ہوتا کہ دو دن بعد بھی بچوں کو ایک وقت کی روٹی مہیا کرسکے۔
حاکم وقت کی نظر عنایت بھی ان پر ہوتی ہے جوگورنمنٹ جابز کرتے ہیں انکی تنخواہیں مراعات بڑھائی جاتی ہیں مگر جو دھاری دار مزدور ہے انکے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی جاتی کہ انکے بارے میں سوچا جاتا۔
وزیراعظم سے لیکر جونیئر سٹاف تک مراعات ٹی اے ڈی اے ان ہی مزدوروں کی خون پسینے کی کمائی سے ہی جاتا ہے۔
سرمائے کا ناجائز استعمال روزانہ کی بنیاد پر پتہ نہیں کتنے گھروں کے چولہے بجھا دیتا ہے کتنے بچوں کی مسکان چھین لیتا ہے کتنے والدین بچوں سمیت خودکشی کر لیتے ہیں کتنے ماں باپ بچوں کو ہی اس اذیت ناک رہنے سے نجات دلا دیتے ہیں۔
سرمائے کا ناجائز استعمال اور ناجائز تقسیم ناانصافی کو جنم دیتا ہے اور ناانصافی کفر سے بڑا گناہ ہے۔
میں دنیا کے قانون دانوں سے سوال کرتی ہوں کہ جب کوئی بلاسٹ ہوتا ہے تو سڑکوں،مسجدوں،سکولوں میںغریب ہی کیوں مارے جاتے ہیں پتہ نہیں کتنے چولہے بھج جاتے ہیں اور کوئی تو ہفتوں اور مہینوں نہیں جلتے۔
میں ملکی خزانوں کی تقسیم کرنے والوں سے یہ سوال کرتی ہوں کہ دنیا میں مزدوروں کا عالمی دن مت مناو بلکہ ان مزدوروں کے لیے پالیسی ترتیب دو ایسے اقدامات کرو کہ کم سے کم پورا سال ان کے گھر دن میں ایک دفعہ چولہا ضرور جلے
کوئی ماں باپ رزق کے ڈر سے اپنے بچوں سمیت خود سوزی نہ کرے نہ ہی اپنے بچوں کے بھوک سے رونے اور بلکنے پر انھیں جان سے مار دیں
مزدوروں کو مزدور ڈے ڈرامہ سے کوئی غرض نہیں انھیں غرض ہے تو اپنی خستہ حالی اور اپنے بچوں کی بھوک سے اور ان کا تن ڈھانپنے کے لباس سے ہے۔
میں دنیا کے حکمرانوں سے گزارش کرتی ہوں کہ وزیراعظم سے لے کر جتنے بھی بڑی پوزیشنوں پر لوگ سیکورٹی کی مد میں ٹی اے ڈی اے کی مد میں ہر مہینے جو اچھی خاصی موٹی رقم لیتے ہیں ان کو ختم کیا جائے اور تنخواہوں کو کم کرکےملکی خزانے کی تقسیم صحیح سے کی جائے تاکہ ملک میں امن کے ساتھ ساتھ انصاف بھی قائم ہو اگر انصاف قائم ہو گا تو دنیا میں جرائم میں کمی واقع ہو گی اور دنیا میں امن و امان قائم ہو گا۔
تمام لوگوں سے بھی میری گزارش ہے کہ وہ مارکیٹوں میں ہزاروں روپے خرچ کر دیتے ہیں جو قیمت لکھی ہوتی ہے وہی ادا کرتے ہیں لیکن جب ایک مزدور کی ریڑھی پر جب بھی جاتے ہیں تو پیسے کم کرنے کے لیے زور ڈالتے ہیں اور انھیں بڑا بھلا بھی سنا کر آتے ہیں مگر وہ ریڑھی والے کا دل اتنابڑا ہوتا ہے کہ کچھ سے کم بھی کر دیتا
اگر آپ نے مزدوروں کا دن منانا ہی ہے تو اپنے اِردگرد نظریں دوڑائیے جو ضرورت مند طبقہ ہے ان کی مدد کریں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھیں.
ہم بچا ہوا کھانا پینھک دیتے مگر ہمسائے پر نظر نہیں ڈالتے کہ شاید وہ کھانا کسی کی زندگی بچا سکتا ہو
شادیوں میں لاکھوں کروڑوں کا خرچ کرتے ہیں بے تحاشا کھانا پینھک دیا جاتا ہے مگر یہ نہیں کرتے کہ وہ کھانا جمع کر کہ یتیم خانوں میں بیھج دیا جائے یا غریبوں میں تقسیم کر دیا جاے
بے بس مزدور عید کے دن بھی فاقے سے ہوتے ہیں کیونکہ کہ سرمایہ داروں نے ان کے حصے کا نوالہ ان کے منہ سے چھین لیا ہوتا ہے
علامہ محمد اقبال صاحب نے کیا خوب فرمایا
ہیں وہیں لوگ جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے