میری نا رسائی
(عورت ہونے کی سزا)
عالمی یومِ خواتین پر نشتر آڈیٹوریم ملتان میں
میں کیسے کروں بیاں اپنی نا رسائی
عورت ہونے کی کیا میں نے ہے سزا پائی
میں جو بیٹی بہن اور ماں کا روپ ہوں
جو سچ پو چھو تو گود سے گورتک
ان رشتوں کی ٹھنڈی چھا ؤں اور
خود کے لیے بس کڑی دھوپ ہوں
جنم لیتے ہی ماں کو میں نے سوچوں میں تھا الجھایا
کہ میرا ہی وجود اس کے لئے تاریکیاں لایا
کبھی تو بھائی نے مجھ کو حقارت سے ٹھکرایا
کبھی خود باپ نے مجھ کو کہیں پر زندہ دفنایا
کبھی وقت نے چھین لی مجھ سے مرے بچپن کی رعنائی
میرے معصوم ننھے ہاتھوں کو
کھلونے کی جگہ روشِ دوراں سکھلائی
میری روشن چمکتی آنکھوں کوزمانے کی تیرگی دکھلائی
مری تقدیر پر دل کھول کر روتی تھی شہنائی
کبھی تو قتل کر ڈالے حنا کے نام پر ارماں
کبھی ڈولی بٹھا کر ناخداؤں نے کیا قرباں
خطا کے نام پر دیوار میں چنوا دیا مجھ کو
وفا کے نام پر کچا گھڑا پکڑا دیا مجھ کو
میں جو تتلی کی طرح ہوا کے دوش پہ اڑتی
اپنے آنچل میں تاروں کے حسین رنگ بھرتی
تمہیں اب کیا کہوں کہ
مجھے دنیا نے کیسے نیلام کیا
ناحق میرے خوابوں کو بدنام کیا
تمہیں اب کیا کہوں کہ
اس جہاں میں میرے کتنے ہی منصف بنائے گئے
فرائض کے سبھی حساب مجھ سے چکائے گئے
جتنے بھی تھے آگہی کے باب مجھ سے چھپائے گئے
شہر کی مقتل میں میرے خواب لٹائے گئے
یوں زندگی موت کے پیرہن میں مرے پاس آئی
احساس کے قاتل لوگوں نے
میری روح کی کرچیوں سے
دنیا کی مقتل سجائی
مت پوچھ مجھ سے میری نارسائی
ایک عورت ہونے کی کیا میں نے ہے سزا پائی
0 تبصرے